ڈیفنس میں خودکشی کرنے والی نوجوان ڈاکٹر ماہا علی کی میڈیکل رپورٹ اور جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد میں تضاد پایا گیا ہے۔
کراچی ڈیفنس فیز فور میں 18 اگست کی رات اپنے گھر میں خود کو گولی مارنے والی ڈاکٹر ماہا علی شاہ کو شدید زخمی حالت میں جناح اسپتال لایا گیا تھا، جہاں جان بچانے کی ابتدائی کوششوں کے دوران ہی لیڈی ڈاکٹر کی موت واقع ہوگئی تھی۔
اسپتال ذرائع کے مطابق ماہا علی چونکہ اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں طبی امداد کے دوران ہلاک ہوگئی تھی۔ اس لئے لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا بلکہ جناح اسپتال کے میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر حسان احمد نے میڈیکل رپورٹ جاری کی تھی۔
میڈیکل رپورٹ نمبر 7478 کے مطابق ڈاکٹر ماہا علی کی کنپٹی پر الٹے ہاتھ سے گولی ماری گئی جو اعشاریہ 6 سینٹی میٹر کا سوراخ کرتے ہوئے سیدھی طرف سے ایک اعشاریہ 2 کا سوراخ کرکے نکل گئی۔ ایس ایس پی ساؤتھ شیراز نذیر کے مطابق جائے وقوعہ پر شواہد اس میڈیکل رپورٹ کے یکسر مخالف پائے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: متوفیہ کے قریبی دوست جنید کا بیان ریکارڈ
انہوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد کے مطابق ماہا علی نے باتھ روم کے اندر الٹے ہاتھ کی دیوار اور کموڈ کے درمیان فرش پر بیٹھ کر پیچھے کی دیوار سے ٹیک لگائی اور سیدھے ہاتھ سے کموڈ کی طرف سے کنپٹی پر نائن ایم ایم پستول رکھ کر گولی چلائی جو سر سے پار ہوکر الٹے ہاتھ کی دیوار میں پیوست ہوگئی۔
دروازہ توڑ کر دیکھا گیا تو شدید زخمی ماہا علی کا سر کموڈ پر تھا۔ متوفیہ کے سر پر گولی کے انٹری اور ایگزیٹ پوائنٹس کی تصاویر میں دونوں زخم دو سے تین سینٹی میٹر دکھائی دیتے ہیں۔
ایس ایس پی شیراز نذیر کے مطابق کہ تفتیش کے دوران دستیاب شواہد سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ماہا علی شاہ نے خود کو گولی ماری کیونکہ کموڈ کی طرف سے کسی کے کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر گولی مارنا ممکن نہیں۔ دوسری طرف میڈیکل رپورٹ خودکشی کی بجائے لیڈی ڈاکٹرز کو قتل کرنے کا اشارہ دے رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ڈیوٹی کے بعد ڈاکٹر ماہا کہاں گئی تھی ؟
اس سلسلے میں پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ متعلقہ ایم ایل او نے اسپتال ایمرجنسی کے ڈاکٹرز سے معلومات لےکر میڈیکو لیگل رپورٹ جاری کردی۔ زخم چیک نہیں کئے گئے اور نہ ہی ماہا علی کے مرنے کے بعد لاش کا معائنہ کیا گیا۔
ایم ایل او حسان احمد سے رابطہ کرکے جب موقف لینے کیلئے تعارف کرایا گیا تو انہوں نے فون بند کردیا۔ پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر کرار علی عباسی کے مطابق میڈیکل رپورٹ زخمی کو ابتدائی طبی امداد دیئے جانے کے دوران بنائی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ایسی صورتحال میں اکثر مریض کی جان بچانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں اکثر اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اہل خانہ لاش کا پوسٹمارٹم کراتے تو صحیح رپورٹ سامنے آتی ہے۔ پولیس سرجن کے مطابق اب قبرکشائی کے بعد لاش کا پوسٹمارٹم کیا جائے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
No comments: