اسلام آباد (انصار عباسی) مالی امور کے ماہرین اور تفتیش کاروں کی ایک پرعزم ٹیم نے کچھ ایسی باتوں کا پتہ لگایا ہے جن کے متعلق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ کئی شوگر ملوں کی بے ضابطگیوں، فراڈ کھاتوں اور منی لانڈرنگ کے ’’ناقابل تردید ثبوت‘‘ ہیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی سے چینی بنانے والے بڑے افراد کی دولت میں اضافہ کیا جو دراصل انڈسٹری کی جانب سے ظاہر کیے گئے منافع کے مطابق نہیں۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ جس طرح ملک میں اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے کیلئے جس طرح یہ منی لانڈرنگ کی گئی وہ بھی اب سامنے آ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوگر انکوائری کمیشن کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کے بعد ملک کے کئی محکموں نے شوگر انڈسٹری کے حیران کن معاملات کے حوالے سے اپنی اپنی تحقیقات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے تحت مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں (جے آئی ٹیز) اس وقت کارپوریٹ فراڈ، منی لانڈرنگ اور ممکنہ طور پر افغانستان کو چینی کی جعلی برآمد کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد میں دو مشترکہ انوسٹی گیشن ٹیمیں (جس میں ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کے سینئر افسران شامل ہیں) اپنی اپنی تحقیقات کر رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے سیکشن 25؍ کے تحت شوگر مل مالکان، ان کے اہل خانہ اور قریبی ساتھیوں کے اثاثوں، جائیدادوں اور بینک اکائونٹس کی تفصیلات جمع کرنا شروع کر دی ہیں۔
غیر ملکی کرنسی کی خریداری اور اسے ملک سے باہر بھیجے جانے کے حوالے سے بھی اسٹیٹ بینک، کمرشل بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں سے معلومات حاصل کی گئی ہیں۔
مختلف ڈپٹی کمشنرز، ہائوسنگ اور ریونیو اتھارٹیز کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں تاکہ شوگر مل مالکان، ان کے اہل خانہ اور قریبی ساتھیوں کی جانب سے خریدی گئی جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کی جا سکیں۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ غالب رائے ہے کہ منی لانڈرنگ کی رقوم سے اعلانیہ بے نامی جائیدادیں خریدی اور اکائونٹس بنائے گئے یا پھر کچھ معاملات میں ملک سے باہر جائیدادیں خریدنے کیلئے یہ رقوم باہر بھجوا دی گئیں۔
سرکاری ذرائع کا الزام ہے کہ پی ٹی آئی رہنما کی ملکیت میں ایک شوگر مل اور ایک لسٹڈ پبلک لمیٹڈ کمپنی 4.3؍ ارب روپے کے گھپلوں میں میں ملوث ہے جس میں شیئرہولڈرز کی رقم بھی شامل ہے، اور اس کیلئے کمپنی کے ڈائریکٹرز نے قیمت سے زیادہ مالیت کی ایک کمپنی بھی خریدی۔
اس حوالے سے ایک اور مثال یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اسی شوگر مل نے ایک غیر فعال کمپنی میں 3؍ ارب روپے کی سرمایہ کاری کی اور بالواسطہ طور پر اتنی بڑی بے ضابطگی کا ارتکاب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ قابل بھروسہ لوگوں کے ذریعے اربوں روپے کی نقدی جمع کرنے کے الزام کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، نون لیگ سے جڑے ایک خاندان کی شوگر ملز کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے سامنے آنے والے انکشافات بھی حیران کن ہیں۔ الزام ہے کہ ایک کاغذی کمپنی، جس کی ملکیت نون لیگ کے ایک فرنٹ مین کے نام پر ہے، مختلف ملوں سے بھاری ادائیگیاں وصول کرتی رہی ہے اور منی لانڈرنگ کا آلہ بن کر کام کرتی رہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ شریف فیملی کی ملکیت میں آنے والے کاروباری اداروں کیخلاف بھی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، تحقیقات میں منی لانڈرنگ سے حاصل ہونے والے مالی فوائد سے خریدے جانے والے وسائل کی نشاندہی کی جا رہی ہے، خصوصی طور پر یہ تحقیقات ایسے افراد کو مد نظر رکھ کر کی جا رہی ہے جو خود یا ان کے اہل خانہ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
سرکاری ذرائع نے یقین دہانی کرائی ہے کہ موجودہ تحقیقات سے نہ صرف چینی کے کاروبار کی آڑ میں کی جانے والی ڈکیتی کا پردہ فاش ہوگا بلکہ وہ طریقے بھی سامنے آئیں گے کہ کس طرح جن نگران اور ضابطے کے اداروں کو کارروائی کرنا چاہئے تھی، انہیں خاموش کرایا گیا اور کارروائی سے روکا گیا۔
اس تحقیقات کے دوران ایف بی آر والے بھی خصوصی انکوائریاں اور اسپیشل آڈٹ کرا رہے ہیں جس سے یہ بات سامنے آئے گی کہ جس وقت مالکان اپنی سوچ سے زیادہ دولت جمع کر رہے تھے اس وقت ان کی شوگر ملیں معمولی منافع یا پھر خسارہ کیسے ظاہر کر رہی تھیں۔ آڑھتیوں یا مڈل مین کے ذریعے اور اپنے کھاتے خفیہ رکھتے ہوئے اپنا اصل منافع چھپانے کی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں اور شوگر انکوائری کمیشن نے تفصیل سے اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایف بی آر آزاد انداز سے تحقیقات کرے اور منظم اسکینڈل اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کا بھانڈا پھوڑے اور دستاویزی اور شفاف معیشت کی بنیاد رکھے۔
کہا جاتا ہے کہ جس وقت چینی کے کاروبار سے وابستہ بڑے افراد پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں اس وقت لاکھوں چھوٹے کسان ہیں جو اس انڈسٹری کا بوجھ برداشت کر رہے ہیں اور اب ان کی زمینیں وقت کے ساتھ اپنی زرخیزی کھو رہی ہیں۔ کسانوں کو منظم انداز سے کم ادائیگیاں کی جاتی ہیں حالانکہ صوبائی محکموں کے پاس امدادی قیمت کے مطابق کسانوں کو ادائیگیاں یقینی کرانے کیلئے وسیع تر اختیارات اور قانون موجود ہے۔
دی نیوز کو بتایا گیا ہے کہ چونکہ امدادی قیمت صوبائی معاملہ ہے اسلئے صوبوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے اینٹی کرپشن محکموں کو فعال کرتے ہوئے کم ادائیگیاں کرنے کے اس اسکینڈل کا پردہ چاک کریں جو گزشتہ کئی برسوں سے چلتا آ رہا ہے، اس سے غریب کسانوں کو بامعنی انداز سے ہرجانہ بھی ملے گا اور شفافیت بھی یقینی ہو پائے گی۔
No comments: