کراچی کے علاقے ڈیفنس میں جواں سال ڈاکٹر ماہا علی کی مبینہ خودکشی کیس میں پیش رفت سامنے آئی ہے۔ پولیس کے مطابق متوفیہ کے موبائل فون کے کال ڈیٹا ریکارڈ سے سراغ ملا ہے کہ اسے آخری مسلسل تین کالز ایک ہی موبائل فون نمبر سے کی گئی تھیں۔
پولیس کے مطابق مذکورہ شخص کا سراغ لگا لیا گیا ہے جس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پولیس کے تفتیشی افسران کے مطابق متوفیہ ماہا کی لاش کے قریب سے ملنے والا پستول ڈیفنس ہی کے رہائشی ایک شخص سعد ناصر کا لائسنس یافتہ ہے۔
یہ پستول متوفیہ ڈاکٹر ماہا علی شاہ کے پاس کیسے آیا؟ اس کا سراغ لگانے کے لیے پستول کے مالک کی تلاش ہے جس کے گھر پر چھاپہ مارا گیا مگر اسے حراست میں نہیں لیا جا سکا۔
پولیس ذرائع کے مطابق متوفیہ ماہا علی شاہ کا موبائل فون بھی تاحال نہیں مل سکا۔ جس سے اس کیس میں مزید پیش رفت سامنے آئے گی۔ تفتیشی ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ اس کے سلسلے میں 6 متعلقہ افراد کے بیانات ریکارڈ کیے جاچکے ہیں۔
پولیس پارٹی گزشتہ روز میرپورخاص بھی گئی تھی جہاں متوفیہ کے اہل خانہ کے بیانات لیے تاہم حتمی بیانات کے لیے یہ خاندان آئندہ 24 گھنٹے میں کراچی پہنچ جائے گا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پولیس افسر نے بتایا کہ اس کیس میں آئندہ چوبیس گھنٹے کے دوران اہم پیش رفت سامنے آئے گی۔ پولیس کے مطابق اگر یہ خود کشی ثابت ہو بھی جاتی ہے تو بھی اس کے پیچھے چھپے کرداروں کو قانون کے مطابق سزا دلانے کے لئے مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔
No comments: